غزل
اس نے مجھے دھوکا دیا بھرے بازار میں
کیا ملتا ہے دوستی کر کے کسی یار میں
اب ہوش میں آیا ہوں میں سننے والو
وگرنہ میں تو پاگل تھا اس کے پیار میں
میں نے سوچا تھا اس کے سنگ گزاروں گا
جو چار دن زندگی ملی ہے خدا سے ادھار میں
اس نے مجھے کاٹ کر ریزہ ریزہ کر دیا آج
میں سوچتا رہا کہ اتنی طاقت نہیں تلوار میں
اب ان پیڑوں کو ان پھولوں کو کیا بتاؤں گا
جن کی چھاؤں میں بیٹھا کرتے تھے ہر بہار میں
اب تو سیف کو دوستی سے نفرت سی ہو گئی
اب برباد ہونے کےلئے کچھ نہیں دل بیزار میں
No comments:
Post a Comment