غزل
غیروں سے مل کر میرا دل جلاتی ہو کیوں
اتنے تیز دھار تیر دل پہ چلاتی ہو کیوں
اتنے تیز دھار تیر دل پہ چلاتی ہو کیوں
بہت سوچتا ہوں اب نہ بات کروں گا تم سے
سامنے آتے ہی دل پر نجانے چھا جاتی ہو کیوں
اگر تم اپنے قول و قرار کو نبھا نہیں سکتی
تو ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتی ہو کیوں
لوگوں کے سامنے میری بات نہ مان کر
دنیا کی نظروں سے مجھ کو گراتی ہو کیوں
ہر بار میرا دل کھلونا سمجھ کر توڑتی ہو
پھر بھی نجانے تم ہی مجھے بھاتی ہو کیوں
تم لوگوں کو روکو مجھے پتھر مارنے سے
تم مگر خود مجھ پہ پہلا پتھر برساتی ہو کیوں
سیف کو غیر اور غیروں کو اپنا سمجھنے والی
سچ بتاوُ اتنے ظلم اس پہ ڈھاتی ہو کیوں
No comments:
Post a Comment