غزل
جن کے بنا ایک پل نہ گزرتا تھا آج ہفتہ گزر گیا
جدایُ کا سفر غم دے کر رفتہ رفتہ گزر گیا
جدایُ کے لمحے بھی خدا نے چاہا تو کٹ جاییُں گے
جس طرح غموں سے بھرا زمانہ گزشتہ گزر گیا
جلدی آ جاوُ میرے یار ورنہ بہت دیر ہو جاےُ گی
پھر کہو گےجو انساں تھا مجھ سے وابستہ گزر گیا
افسوس پیاری زندگی کی قدر نہ کی میں نے
زندگی کا اتنا قیمتی وقت کتنا سستا گزر گیا
اس کی تصویر کو دیکھ دیکھ کر آنسو بہاےُ تھے
وہ ملا تو میرے پاس سے کیسے ہستا گزر گیا
وہ ملا تو میرے پاس سے کیسے ہستا گزر گیا
آخر کار پیاس سے مرنا تمہارا مقدر ہے سیف
اور تمہارے سامنے زمانہ پانی بھرتا گزر گیا
No comments:
Post a Comment