غزل
اتنی لمبی جدائی کیسے برداشت کروں گا
دن گزرے گا کیسے کیسے بسر رات کروں گا
ہر پل آئے گی یاد تیری میرے دوست
نظر انداز کیسے اپنی یادداشت کروں گا
زندگی کے ہر موڑ پہ رہنمائی کی تم نے میری
بن تیرے صحیح غلط کی کیونکر شناخت کروں گا
تیرے بغیر روٹھوں گا کس سے کون منائے گا مجھے
وہ کون ہو گا جس سے دل کی ہر اک بات کروں گا
جب کوئی بھی پریشانی آئے گی مجھ پر تیرے بعد
کس سے کر کے مشورہ اس سے حاصل نجات کروں گا
بات بات پر ہاتھ چوموں گا کس کے بتاؤ
کس کو دیکھ کر محبت کی برسات کروں گا
کس کو ملنے کے لئے رات کو جلدی سوؤں گا سیف
صدیوں جیسے دنوں میں کیسے گزر اوقات کروں گا
No comments:
Post a Comment