غزل
تنہا تنہا ہم سے یہ عید بیتائی نہیں جاتی
دھڑکن سے تمہاری تمنا مٹائی نہیں جاتی
اتنی خوشی کا دن اتنی بےچینی سے گزرا تم بن
کیا حالت تھی دل کی کیا کریں بتائی نہیں جاتی
ہماری آنکھوں میں صورت بسی رہتی ہے تیری
اور خیالوں سے وہ میٹھی میٹھی لڑائی نہیں جاتی
ایک لمحہ بھی نہ لگے دل جس محبت میں دوست
اس طرح کی دوستی آسانی سے بنائی نہیں جاتی
بنا تیرے اب تو یہ حال ہے ہمارا کیا بتائیں
سانس بھی بنا نام لئے تیرا چلائی نہیں جاتی
ہم نے اپنے دل پہ لکھا کہ تیرے بنا جینا نہیں ہمیں
یہ سیاہی ہم خود بھی چاہیں تو مٹائی نہیں جاتی
ہم نےجدائی میں رو رو کر برا حال کر لیا سیف
مگر رونے سے تو لکھی ہوئی جدائی نہیں جاتی
No comments:
Post a Comment